راجن
پور(کرائم رپورٹر)خواجہ فرید ؒ اور شاہ لطیف بھٹائی کا پیغام ایک ہے تو ان
کے ماننے والوں کو بھی ایک ہی ہوناچاہیے ۔صوفیاء کرام نے انسانوں کو رنگ و
نسل ، مذہب وملت اور علاقائی حدود سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے
کی بات کی ہے ۔مسجدوں مندروں امام بارگاہوں اور کلیساؤں کو آگ لگانے والے
انسانیت کے دشمن ہیں۔ان خیالات کا اظہار مجاہد جتوئی کے مرتب کردہ دیوان
فریدؒ بالتحقیق کی تقریب پذیرائی کے لیے سر شاہنواز بھٹو آڈیٹوریم کے
لائبریری ہال میں مقررین نے کیا ۔اس تقریب کا اہتمام خواجہ فریدؒ فاؤنڈیشن
کی طرف سے کیا گیا تھا۔افتتاحی مقالہ سندھی ادیب امام راشدی نے پڑھا جس میں
دیوان فریدؒ کے مرتب مجاہد جتوئی اور صوفیاء کرام کی تعلیمات پر سیر حاصل
گفتگو کی گئی ۔تقریب کے ناظم ڈاکٹر ساغر نے سندھ دھرتی اور تصو ف کے حوالے
سے اپنے مقالے میں بتایا کہ معلوم تاریخ سے بھی پہلے سندھ دھرتی کا تعارف
یہاں کے نرم مزاجی،مہمانداری ،تحمل اور برداشت تھا ۔ڈاکٹر ساغر نے کہا کہ
موہن جودڑو کے آثار ایک روحانی تہذیب و تمدن کی باقیات ہیں ۔مختلف ادوار
میں حملہ آوروں کی وجہ سے لوگ یہاں سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے اور
وہاں بھی انہوں نے علم ودانش بکھیرے۔حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے
آباؤاجدادبھی ٹھٹھہ(سندھ) سے منتقل ہوئے تھے۔مجاہد جتو ئی نے ان کے دیوان
پر نہایت بہترین کام کرکے ریسرچ اسکالرز کے لیے تحقیق و فکر کے دروازے کھول
دیے۔ سندھی اور سرائیکی عوام کے درمیان شاہ لطیف ؒ ،سچل سرمستؒ اور خواجہ
غلام فریدؒ قدرے مشترک کے طورپر موجودہیں رسم الخط کے اختلاف کو ایک کاغذ
کی دیوار سمجھاجائے۔سندھ کے ادیب دیوان فریدؒ کو سندھی رسم الخط میں
منتقل کر کے اسے عوام الناس تک پہنچائے اور اسی طرح شاہ لطیف بھٹائی اور
دیگر سندھی سرائیکی شعراء کی تخلقات کے درمیان کھڑی کی گئی تمام دیواروں کو
ہٹانا چاہیے۔تقریب کے صدر سجادہ نشین دربارفریدؒ خواجہ معین الدین محبوب
کوریجہ نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ سندھ کے
بھی اتنے ہی شاعر ہیں جتنے بڑے وہ سرائیکی وسیب میں ہیں۔آپ نے کہا کہ یہی
وہ لوگ ہیں جن کی تعلیمات امن کی ضمانت ہیں جو معاشرے کو تصادم سے بچانے کی
صلاحیت رکھتی ہیں۔تقریب میں امام راشدی،ڈاکٹر ساغرابڑو، منظوراحمد منگی،
ڈاکٹر شبیر احمد شاد، احسان دانش،رضوان گل،احمد علی صابر چانڈیو، عزیز
کسمانی اور پنل میمن نے خطاب کیا ۔دیوان فریدؒ کی مہورت کیلئے دلچسپ طریقہ
اختیارکیاگیاجو یوں تھا کہ اسٹیج پر پھولوں کی کئی ٹوکریاں رکھی گئیں تھیں
جن کے اندر دیوان فریدؒ موجود تھا۔سٹیج سیکرٹری کی دعوت پر بیک وقت کئی
مہمانوں نے پھولوں کی ٹوکریوں سے دیوان فریدؒ نکال کر سامعین و ناظرین کے
سامنے پیش کیاتو اس پر پھولوں کی بارش کی گئی اور سندھی ثقافت کی علامت
اجرکیں اور ٹوپیاں پیش کی گئیں ۔یادرہے کہ اس دوران دیوان فریدؒ بالتحقیق
کے مرتب کنندہ مجاہد جتوئی ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہو گئے تھے لیکن اس کے
باوجود بھی وہ تقریب میں موجود رہے۔
0 comments:
Post a Comment